سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی (مختصر تعارف) 2023

The In Time
By -
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی جگر گوشہ حضرت سخی سلطان باھو صاحب کی ولادتِ با سعادت عالمِ اِسلام کے تاریخ ساز دِن یعنی 14 اگست 1947ئ کو ہوئی  یہ دن تاریخِ اسلام میں وہ اہم مقام رکھتا ہے کہ جِس دن سلطنتِ مدینہ کے بعد کوئی بھی دوسری مملکت اِسلامی جمہوریّہ پاکستان  نظریۂ لا اِلٰہ اِلّا اللہ کی بنیاد پہ معرضِ وجود میں آئی اعوان تاریخی روایات اور شجرہ نسب کے مطابق علوی ہاشمی اور سادات کے نسبتی ہیں یعنی آپ کا شجرہ نسب منبع ولایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے- سلطان حامد رحمۃ اللہ علیہ مصنف ’’مناقب سلطانی‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسل پاک سے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب اس طرح سے ہے:

حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ بن سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ بن سلطان فتح محمد بن سلطان غلام رسول بن سلطان غلام میراں بن سلطان ولی محمد بن سلطان نور محمد بن سلطان محمد حسین بن سلطان ولی محمد بن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ۔
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے توسط سے سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت علی علیہ السلام سے جا ملتا ہے  حضرت سلطان محمد اصغر علی (رح) نے ابتدائی تعلیم کا کچھ حصّہ دربار حضرت سلطان باہو(رح) کے مقامی سکول اور کچھ وادیٔ سون سکیسر کے شہر نوشہرہ میں مکمل کیا بعد ازاں آپ اپنے والد و مُرشد کی صُحبت میں آگئے ، اپنے والدِ گرامی کے وصال کے بعد آپ نے مسندِ ارشاد سنبھالی مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالنے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی نگاہِ کامل سے ہزاروں طالبانِ مولیٰ کو ورد و وظائف کی مشقت میں ڈالے بغیر محض اپنی روحانی قوت اور تصرف سے فقر کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچا دیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے موجودہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق راہِ فقر میں انقلابی اقدامات کیے اور طالبانِ مولیٰ کے لیے اس راہ کو آسان ترین بنا دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حق کی اس راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے فقر کی نعمت صرف خاص الخاص منتخب شدہ لوگوں کو عطا کی جاتی تھی اور اسمِ اعظم یعنی اسمِ اللہ ذات کو ظاہر کرنا شریعت کے خلاف سمجھا جاتا حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی دربار سلطان  میں میڑک کلاس میں تھا 1992 کی بات ہے جب آپ کا مرید ہوا مجھے آپ کی اونی ٹوپی جو اپ اکثر  پہنتے تھے بڑی پسند تھی اپ سردیوں میں  سویٹر پہنتے تھے جو آپ کو بڑا ججتا تھا اور سفید لباس یہ اپ کی پسندیدہ چزیں تھی  اپ ان کو  بہت پسند کرتے تھے اپ کی داھڑی مبارک پر رات کے وقت ایک پٹی باندھتے تھےنظر جس سے داھڑی میں مزید  نکھار پیدا ہوتا وہ ایک دل کی صورت نظر آتی  اپ ہمیشہ جک کر چلتے اور دوسروں کو بڑے پیار سےملتے تھے جب بھی کوئی اپ سے ملنے آتا اپ ایک مخصوص انداز میں اس کی خیریت دریافت کرتے جو ایک دل کش انداز تھا  اپ بہت دھیمی اواز میں بولتے اور پر وقار انداز میں چلتے تھے باب دادا کی طرح غریبوں کے گھروں کے مہمان بننا پسند کرتے تھے کھوہار میں جب اتے اپ کے مرید اپ کے پیچھے پیچھے چلتے بلند اواز میں ذکر اللہ ھو کرتے تھے میں جب بھی ان کو ملنے جاتا تھا اپ  کمال محبت شفقت فرماتے اللہ جنت میں اپ کا گھر کرے درجات بلند کرے اپ کا چلایا ہوا اصلاحی روخانی مشن چلتا رہے امین حضرت سلطان محمداصغرعلیؒ : ایک عہدسازشخصیت تھے اپ ضلع جنگ کے موضع حضرت سلطان باھوؒ کے رہنے والے تھے  آپ امانتِ باھُو کے امین اور فقرِ مصطفوی (ﷺ) کے حامل تھے بزرگ تھے آپ ایک پاکباز ، راست گو اور نگاہِ باتاثیر کی حامل شخصیت کے مالک تھے اپ  زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے-آپؒ شریعتِ مطہرہ پہ نہایت محبت و تمنا سے عمل فرماتے اور فرائض و واجبات پر سختی سے عمل کرنے والے تھے؛ تاہم زاہدِ خشک نہ تھے، خوش مزاجی آپ کی طبیعت کا خاصہ تھی اور طریقت و معرفت میں کامل تھے - آپ اپنے عظیم خانوادے کے عظیم بزرگوں کی شاندار و تابناک روایات پر کامل طریقے سے عمل فرماتے-  وظائف (اسمِ اللہ ذات) کا کثرت سے اہتمام کرتے- تصوّف آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا آپ عشقِ رسول کے جذبے سے سرشار تھے اور اپنے مریدین کو بھی اطاعتِ رسول اور ادب و محبتِ رسول (ﷺ) کا حکم دیتے- آپ صرف ربیع الاول میں ہی نہیں بلکہ پورے سال پاکستان بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میلاد مصطفےٰ (ﷺ) کی محافل کا انعقاد کرواتے بالخصوص جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے چار مہینوں میں بہت بڑی بڑی محافل کا انعقاد کرواتے اورنفس بہ نفیس شرکت کرتے؛ اور اس چار ماہ کے سلسلہ میلاد مصطفےٰ (ﷺ) کوہرسال 12،13 اپریل کو دو روزہ محفلِ میلاد دربار شریف پر منعقد کرواکراختتام کرتے-یہ سلسلہ آج بھی آپ کے جانشین سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں جاری و ساری ہے- آپ کا نظریہ تھا کہ سید الانبیا خاتم المرسلین (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ عظمیٰ و کبریٰ ہیں ایسی نعمت کی خوشی منانے کیلئے دِن کی کوئی قید نہیں، اللہ پاک جب توفیق دے تو مسلمان کو حسبِ استطاعت ذکرِ مصطفےٰ (ﷺ) کی محفل سجانی چاہیے آپ اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز، وسیع دسترخان کے حامل، جو بھی آپ کی درگاہ پر حاضر ہوتا اس کی مہمان نوازی کیے بغیر واپس نہ جانے دیتے- گفتگو میں انتہائی حلیم الطبع تھے- دھیمے لہجے اور پست آواز میں گفتگو کرتے، آپ سادہ مگر دیدہ زیب لباس زیبِ تن فرماتے، اکثر اوقات تہبند جبکہ شکار کے دوران شلوار استعمال فرماتے، برصغیر کی معروف روایت لنگی بھی اکثر استعمال فرماتے-اکثر اوقات واسکٹ پہنتے، سردیوں میں اونی جرسی بھی استعمال ہوتی سرِ مبارک پہ سندھی ٹوپی پہنتے  ، خاندانی روایات کے مطابق سفید دستار، شملہ  کے ساتھ باندھتے اکثر اوقات پختون مُشدّی بھی باندھتے-چہرہ مبارک پہ سنہری فریم والا چشمہ بھی استعمال ہوتا تھا ۔حضور سلطان الفقرؒ گوشہ نشین ہونے کی بجائے مردِ میدان بن کے رہنا زیادہ پسند کرتے ، اکثر اوقات سفر میں رہتے جب کبھی دربار حضرت سلطان باھُوؒ پہ بھی ہوتے تو بھی تشنگانِ فیض و تلقین کا تانتا بندھا رہتا-آپ نے زائرین و مریدین کی تربیت کیلئے نوری مسجد حق باھُو میں ہر نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن پاک لازم فرمایا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے، بعد از نماز عشا حضرت سلطان باھُو ؒ کی تصانیف مبارکہ کا درس بھی آپ ہی کی خانقاہ کا خاصہ ہے- آپ کی درگاہ پر ہر ماہ گیارہویں شریف اور سالانہ میلاد مصطفےٰ (ﷺ)  کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے.
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی
ولیء کامل سلطان الفقر حضرت سلطان باھو کی آل سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ ہستی سلطان اصغر علی ششم جن کی دعوت وتبلیغ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی آپکا اسم اللہ کے پرچار کو چار چاند لگانے والے اور صرف اللہ کی عبادت پہ معمور کرنے والے معتبر ولیوں میں شمار ھوتا ھے
بیشک اللہ کے ذکر سے ھی دلوں کو سکون اور تقویت حاصل ھوتی ھے اللہ کریم ہمیں نمازِ پنجگانہ اور تلاتِ کلامِ پاک کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے اپ کے ہاں  لنگر کا حسبِ مقدور انتظام ہوتاہے - آپ کے دسترخوان پر اپنے پرائے کی کوئی قید نہ تھی نہ ہے - آپ اکثر ارشاد فرماتے کہ یہ لنگر میرے حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ)کا ہے اور اس دسترخوان پر سب برابر ہیں آپؒ کو حضور غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اور حضور پیر سید بہادر علی شاہؒ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی- کسی بھی محفل میں حضور عبد القادر جیلانی اور حضور پیر سید بہادر علی شاہ صاحبؒ کا ذکر ہوتا تو آپ پر خاص کیفیت طاری ہو جاتی - آپ پیر بہادرعلی شاہ صاحبؒ کے مزار پر نوراتا، اکیس راتا، اکتالیس راتا کیا کرتے تھے آپ محبتِ رسول کے جذبے سے سرشار تھے اور اپنے مریدین کو بھی اطاعتِ رسول اور ادب و محبتِ رسول (ﷺ) کا حکم دیتے- آپ صرف ربیع الاول میں ہی نہیں بلکہ پورے سال پاکستان بھر کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں میلاد مصطفےٰ (ﷺ) کی محافل کا انعقاد کرواتے بالخصوص جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے چار مہینوں میں بہت بڑی بڑی محافل کا انعقاد کرواتے اورنفس بہ نفیس  شرکت کرتے؛ اور اس چار ماہ کے سلسلہ میلاد مصطفےٰ (ﷺ)  کوہرسال 12،13 اپریل کو دو روزہ محفلِ میلاد دربار شریف پر منعقد کرواکراختتام کرتے-یہ سلسلہ آج بھی آپ کے جانشین سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں جاری و ساری ہے- آپ کا نظریہ تھا کہ سید الانبیا خاتم المرسلین (ﷺ)  اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتِ عظمیٰ و کبریٰ ہیں ایسی نعمت کی خوشی منانے کیلئے دِن کی کوئی قید نہیں، اللہ پاک جب توفیق دے تو مسلمان کو حسبِ استطاعت ذکرِ مصطفےٰ (ﷺ) کی محفل سجانی چاہئے آپ کے سفر کے دوران کوئی ارادت مند اپنے گھر میں چھوٹی سی محفل کا بھی اہتمام کرتا تو اس میں شرکت فرماتے آپ بڑی نوعیت کے اجتماعات میں معتبر و مستند علمائے اہلسنت کو مدعو کرتے-مریدین کو بھی تلقین فرماتے کہ علمائے کرام کی قدر بھی کرو اور ادب بھی کیونکہ علما کا اٹھا لیا جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوگا، اِس لئے آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت سلطان محمد معظم علی صاحب، اپنے شہزادگان اور بھتیجوں کو علمِ دین کی طرف رغبت دلائی اور اس کے عملی حصول کیلئے جیّد علمائے کرام کی خدمت میں بھیجا  - پورا سال آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہتا- اپنے بزرگوں کی قائم کردہ روایات کے مطابق اپنے مریدین کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور ان کی تربیت فرماتے،اُن کے گھروں میں ذکر و نصیحت کی محافل کا اہتمام کرنے کا بھی حکم فرماتے- آپ دورانِ سفر جہاں بھی قیام فرماتے، وہیں محفلِ ذکر اور نعت خوانی ہوتی- سفر کے رفقاء میں علما بھی ہوتے ، ترجمہ کنز الایمان، تفسیرِ نعیمی اور حضور سلطان العارفین کی کتب عین الفقر اور نور الہدیٰ کا درس ہوتا جس کے آخر میں آپؒ تلقین ارشاد فرماتے اوردعا فرماتے- لوگ بڑی تعداد میں آپ کے دستِ فیض رسان پہ بیعت اختیار کرتے، بیعت کے وقت آپ لوگوں کو اجتماعی توبہ کی تلقین کرتے ، نماز، روزہ، شریعتِ مطہرہ کی پابندی اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر کا حکم فرماتے آپ علم و عمل اور دین و دنیا کا حسین امتزاج تھے، آپ تصوّف کی تعلیم سے بھی آراستہ تھے، معاشرتی فہم و فراست سے بھی مالامال تھے- ہر آدمی سے خصوصی شفقت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے۔آپ نے وصال سے آٹھ ماہ پہلے سلطان محمد علی صاحب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ، حضرت سلطان محمد علی صاحب نے اپنے والدِ گرامی کے دستِ فیض رسان پہ بیعت کی اور انہی سے خرقہ خلافت حاصل کیا حضرت بانیٔ اصلاحی جماعتؒ  26 دسمبر 2003ء بروز جمعۃ المبارک، دورانِ سفر ڈیرہ اسماعیل خان میں واصل الحق ہوئے- آپ کو آپ کے والدِ محترم حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیزؒ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا- آپ کے وصال سے پیدا ہونے والا خلا اگرچہ پُر نہیں ہو سکتا تاہم آپ کا خاندان اب بھی  آپ کے جانشین سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں رشد و ہدایت کا مینار نور ثابت ہو رہا ہے- حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب نمایاں شخصیت ہیں جو لوگوں کے دلوں میں عشقِ مصطفے ٰ کی شمع فروزاں کر رہے ہیں- حضور سلطان الفقر ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے اپنے کردار کی بدولت تاریخ کا دھارا موڑ کے رکھ دیا- ان کے کارہائے نمایاں سے نہ صرف پاکستان، بلکہ پورا عالم اسلام مستفید ہو رہا ہے- آپ نے 56 سال عالم اسلام کو اپنے نور سے مستفید کیا آپ عالم اسلام کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے بیک وقت کئی شعبوں میں کام کیا- آپ کا شمار معاصر دنیا کے صفِ اوّل کے صوفیا کرام میں ہوتا ہے-اِس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پھول اپنے رنگ اور خوشبو سے پہچانا جاتا ہے- پھل کا تعارف اُس کی بناوٹ اور ذائقہ ہے- باد بہاری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے دامن میں گلشن کی حیاتِ نو کی نوید جاں فضا رکھتی ہے، چاند کی چاندنی ہی اس کا عنوان جلی ہے- سورج کی ہلکی سی نمود بھی زمانے کو اس کے بارے میں خبر دیتی ہے- دودھ کی نفع بخشی اور اس کی رنگت کی نفاست ہی اس کی پہچان ہے، اسی طرح کسی انسان کا تشخص اس کی صلاحیت، علمی ذوق، عمل، جذبہ خدمت، صبر و ثبات، استقامت اور فکری بلندی ہے- جتنا کسی شخص کا اولین مقصد آفاقی اور عالم گیر ہوگا اس کا جذبہ عمل، متاعِ لازوال سے مالا مال ہو گااتنا ہی وہ کسی معاشرے کے لیے مفید اور موجب فخر ہو گا- سلطان الفقرؒ کو خالقِ عالم نے ان صلاحیتوں سے کلی طور پر مالا مال فرمایا ہے- آپ کی ذات بالا شان جامع الصفات اور ہمہ گیر ہے- آپ کی شخصیت خدماتِ جلیلہ کے باعث ممتاز نظر آتی ہے- جہد مسلسل، یقین محکم اور عمل پیہم آپ کا طرہ امتیاز ہے- آپ فرزندانِ توحید کی سربلندی کے آرزو مند اور اتحادِ ملت کے نقیب تھے- آپ اُمت مسلمہ کو اغیار کی وریوزہ گری سے نکالنے کیلیے ہمیشہ کوشاں رہے- معروف مصنف طارق اسماعیل ساگر صاحب نے آپ کو اقبال کے مردِ مومن کے تصور کی حقیقی تصویر لکھا ہے ، بلکہ آپ کی سیرت و سوانح پہ مرتب کردہ اپنی کتاب کا نام بھی اقبال کے اسی تصور پہ قائم کرتے ہوئے ’’صاحبِ لولاک‘‘ رکھا -
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی
جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، یہ فتنوں کا دور ہے- ابلیسی قوتیں پوری ہوشیاری کے ساتھ دینی اقدار کو روندنا چاہتی ہیں- اس طوفان بلاخیز کا چہرہ بھی ایک نہیں کہ بندہ کسی ایک محاذپر ڈٹ جائے اور اس کا مقابلہ کرے، بلکہ اس کے ہزار چہرے ہیں- جب صورتحال ایسی ہو تو اہل حق کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں-آستانہ عالیہ حضرت سلطان العارفین سلطان باھوؒ کو یہ اعزاز حاصل ہے کے اس کے مسند نشین ہر دور میں ایسے صاحب بصیرت رجال کار آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف عالم اسلام کے مسائل کو سمجھا ہے بلکہ ان کو حل کرنے کی بساط بھر کوشش بھی کی ہے- سلطان الفقر سلطان محمد اصغرعلی صاحبؒ نے اپنے دور میں لوگوں کو شراب معرفت الٰہی پلا کر جادہ حق پر ایسا گامزن کیا کہ فیض یافتگان کی دیوانگی پر اہلِ خرد کی فرزانگی رشک کرنے لگی اپ نے دینِ حق کی سر بلندی کیلئے 1987ئ میں اصلاحی جماعت کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور مُریدین و معتقدین کو عصری تقاضوں کے مطابق ایک عملی پلیٹ فارم مُہیّا کیا اُنکو ایک روایتی و فرسودہ نظام سے بچانے اور ’’عجمیَّت ‘‘ سے پاک رکھنے کے لئے میدانِ عمل میں اُتارا  جن کو صدر کیا جاتا تمام صدور کو فن تقریر سکھائی جاتی ان کو معاشرے کی اصلاح کے لیے میدان میں اتارا  آپ نے اپنے ہزاروں مریدین میں سے چند ایک کو منتخب فرما کر اُنکی تربیّت فرمائی اور اُنہیں عملی طور پر تبلیغِ دین کا اہم فریضہ سونپا ۔ پھر آپ نے آہستہ آہستہ اُن مُبلّغین کی تعداد میں اضافہ کیا اور تحریکی بُنیادوں پہ اُنکو منظم کیا اور مُلک بھر کے تمام اضلاع اور پھر یونٹوں کی سطح پہ دفاتر قائم کیئے۔ اِس کے 13 سال بعد آپ نے ایک اور تنظیم ’’ عالمی تنظیم العارفین ‘‘ کے نام سے قائم کی اور تمام وابستگان کو تین مراحل میں اعلیٰ مقاصد عطا کئے 

نمبر 1 استحکامِ اسلامی جمہوریّہ پاکستان 
نمبر 2 اِتحا دِ اُمتِ مُسلمہ 
نمبر 3 فلاح و تشکیلِ مُعاشرۂ اِنسانی ۔


اِس کے ساتھ ساتھ آپ نے اور شعبہ جات بھی قائم فرمائے ۔ آپ مُروّجہ خانقاہی نظام میں اِصلاحات اور تبدیلیاں چاہتے تھے جس کے لئے آپ نے اپنے والدِ گرامی و مرشد کریم کی خانقاہ کی تعمیر اور وہاں سے عملی تحریک شُروع فرماکر خانقاہ کو رول ماڈل کے طور پہ پیش کیا حضر ت سلطان محمد اصغر علی (رح) نے تمام عمر قرآن و سُنّت کو اُصُول بنا کر اور بھر پور عملی و تحریکی جدّ و جہد میں گزاری ۔ ایک حج، کئی عمرے اور متعدّد مرتبہ سرچشمۂ فیضانِ رحمت ،روضۂ رسول ﷺ کی حاضری سے شرف یاب ہوئے ۔ آپ عجمی طریقہ ہائے ذکر اور اسمأ صفات کے ذکر سے بڑھ کر ذکر و تصوّرِ اسمِ اللہ ذات کی تلقین فرماتے ۔ جیسا کہ حکیم الامّت علامہ محمد اقبال نے بھی خوب کہا 

مردِ مومن در نسازد با صفات 
مصطفےٰ راضی نہ شُد اِلّا بہ ذات

یعنی مردِ مومن صفاتِ الٰہی تک اپنے آپ کو محدود نہیں کرتا کیونکہ مصطفےٰﷺ راضی نہیں ہوتے جب تک کہ ذاتِ الٰہی تک رسائی نصیب نہ ہو جائے آپ(رح) فنِّ تعمیر میں بھی انتہائی نفیس ذوق رکھتے تھے ، آپ نے اپنے مرشد و والد حضرت سلطان محمد عبد العزیز صاحب کے آستانہ پہ قابلِ دید مسجد تعمیر کروائی جس کی چُنائی وادیٔ سون سکیسر کے مخصوص پتھر سے کروائی اور مسجد کے اندر ملتانی ثقافتی شاہکار یعنی شیشہ کاری کا نہایت نفیس اور باریک کام کروایا آپ اِن تمام مصروفیّات کے ساتھ صحت افزأ سرگرمیوں کا شوق بھی فرماتے آپ انتہائی اعلیٰ نیزہ بازی فرماتے اور خرگوش ، تیتر ، ہرن ، اور ہڑیال کے شکار کو پسند فرماتے تھے آپ کا وصال 26 دسمبر 2003ئ کو خیبر پختون خواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوا ۔ آپ کو آستانہ عالیہ حضرت سُلطان محمد عبد العزیز ، دربار عالیہ حضرت سُلطان باھُو پہ آپ کے والدِ گرامی (رح) کے پہلو میں دفن کیا گیا اپ کے مزار مبارک پر ہزاروں مرید حاضری دیتے ہیں آپ کا فیض اج بھی لوگوں کو مل رہا ہے میں کافی عرصہ بیرون ممالک مقیم رہنے کے بعد جب پاکستان آیا اپنے مرشد خانے پہ حاضری کا شرف ملا اپ کی قبر پہ حاضری سے دلی سکون ملا ۔۔۔۔۔ تحریر ملک محمد زمان کھوہاروی
سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی


Tags:

#buttons=(Ok, Go it!) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Ok, Go it!